Saturday, September 27, 2014

مقدس عمارتیں

:مقدس  عمارتیں:


ملک کے سیاسی حالات اس وقت نقطۂ ابال کو چھو بیٹھے ھیں۔ اپوزیشن اور حکومت اور کئی فا ئدہ اٹھانے والے ایک طرف جب کہ دھرنہ اینڈ کمپنی دوسری طرف ۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف عرصہ 44 دن سے برسر پیکار ھیں۔ دھرنے والوں کے کچھ مطالبے ھیں جنہیں حکومت ماننے کو تیار نھیں اور کچھ حکومت کی باتیں ھیں جنہیں دھرنے والے مانتے نظر نہیں آتے۔ گویا ڈيڈ لاک برقرار ھے اور مذاکرات بے نتیجہ ثابت ھوچکے ھیں۔


ان دھرنوں کے دوران ایک بڑی ہی قابل ذکر چیز نظر آئی کہ کہ جب مظاھرین اسلام آباد کی طرف  روانہ ھوئے تو سب سے پہلے ريڈ زون کو "مقدس زون"  قرار ديا گیا اور اس کا استحصال کرنے والوں کو قرار واقعی سزا کا حقدار ٹھہرایا گیا ۔  مگر خیر حکومت مظاھرین کے آگے بے بس ھوتی نظر آئی ، مظاھرین اور ان کی لیڈر شپ کو بھی اس کا احساس ہوا تو انھوں نے ريڈ زون کی اس "مقدس گائے "کو ذبح کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ عوامی طاقت کے سامنے   حکومت نے بھی مزاحمت نہ کرنے کا اچھا فیصلہ کیا  ۔ سو نہ مزاحمت ہوئی اور اس مقدس گائے کو با آسانی ذبح کرنے دیا گیا ۔


مگر بات یہاں تک ہی نہ ٹھہری۔ مظاھرین اس کے بعد پارلیمنٹ کے بیرونی جنگلے پر حملہ آور ہوئے اور اسے بلآخر توڑ  دیا گیا ۔ اس کے علاوہ تصاویر میں ایک اور چیز کو بھی پذیرائی ملی اور وہ تھی  " سپریم کورٹ آف پاکستان " کے بورڈ پر سوکھنے کے لئے لٹکائی گئی شلوار اور قمیض ۔ اس کے علاوہ مظاھرین نے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے جانے کی کوششیں بھی کیں۔


ان سب واقعات کے دوران حکومت کی جانب سے ایک رٹ بار بار لگائی گئی  ۔ اخبار کیا ، ریڈیو کیا ، ٹی وی کیا گویا ہر جگہ اس رٹ کو خوب چھاپا ، سنایا اور دکھایا گیا کہ مظاھرین پارلیمنٹ اور دیگر " مقدس عمارتوں " کا احترام کریں اور ان کا استحصال نہ کریں ۔ یہ مقدس املاک ہیں جن کا احترام فرض ہے اور چاہے سینکڑوں لوگ مارنے پڑ جائیں ھم اس مقدس گائے کو ذبح نہیں ہونے دیں گے۔


خیر لوگ پارلیمنٹ کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں ، ان پر Tear Gas کی شیلنگ کی جاتی ہے ، ربڑ کی اور اصل گولیوں سے فائرنگ کی جاتی ہے ۔ ہزاروں زايد المیعاد شیل فائر کیے جاتے ہیں ، لوگ زخمی اور ہلاک ہوتے ہیں ۔ بچے ماؤں سے جدا ہوجاتے ہیں اور پھر اگلے ہی دن ٹی وی اخباروں پر کرسی کے رسیا تمام سیاست دان اور کچھ مفاد پرست ملّا بھی پارلیمنٹ پر حملے کو حرام قرار دیتے  ہیں ، مظاھرین کو بلوائیوں کا خطاب ملتا ہے اور اس " مقدس گائے "  پر حملہ آور ہونے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا کہا جاتا ہے ۔


مگر ان عقل کے اندھے  عقل کے اندھے ،  کرسی کے رسیا ، لالچی ، خود غرض ، ایمان فروش ، ضمیر فروش اور بکے ہوۓ سیاست دانوں کو کون جا کر سمجھاۓ کہ جناب جب پیٹ خالی ہوں ، کھانا ملنے کا پتہ نہیں کہ ملے یا نہ ملے ، جب ماوٴں کی آنکھوں کے سامنے ان کے جگر گوشوں کے قتل سرعام آزاد گھومتے نظر آئیں ، جب بیٹیوں کے باپ ان سے چھین لیے جائیں ، جس ملک کے بچے بے گناہ یتیم کر دیۓ جائیں ، جب بہنوں کے سہاگ بلا وجہ اجاڑ دیۓ جائیں  ، جب تمام ملک کے چیدہ چیدە اور اعلی   ترین چور اسمبلیوں میں پناہ لیے بیٹھے ہوں اور اشتہاری ان کے دست راست ہوں تب ان مقدس عمارتوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ۔ تب یہ پارلیمنٹ ملک کے ماتھے پر سیاہ دھبہ معلوم ہوتا ہے  ، تب یہ وزیر اعظم ہاوٴس ملک کے خادم کا گھر کم اور بادشاہ کا گھر زیادہ معلوم ہوتا ہے ، تب یہ عمارتیں وہ محل خیال ہوتی ہیں جن کو بنانے میں سیمنٹ اور ریت نہیں بکہ عوام کا گوشت اور خون استعمال ہوا ہے ۔


 تو پھر حملے کیوں نہ ہوں ، جب کسی باپ کو اس کے بیٹے کا قاتل مقدس ایوان میں سفید امپورٹڈ سوٹ پہنے بیٹھا نظر آۓ گا اور وہ کروڑوں کی گاڑیوں سے شاہانہ انداز سے اس کا منہ چڑا رہا ہو ، جب یتیم بچوں کو ان کے باپ کا قاتل  BMW ، MERCEDES اور RANGE ROVER میں بیٹھا نظر آۓ  ، جب بہنوں کو ان کے سہاگ اجاڑنے والے ہیلی کاپٹروں میں پھرتے نظر آئیں ، وہ جسے روزانہ 60 روپے نہ ملیں اور اپنے 60000 فی منٹ کے حساب سے بلاوجہ پارلیمنٹ پر خرچ ہوتے نظر آئیں وہ تو حملہ آور بھی ہوگا ، حساب بھی مانگے گا ، بآسانی ورغلایا بھی جاۓ گا اور اس " مقدس گاۓ " کا استحصال بھی کرے گا۔اس کا ورغلایا جانا بھی ٹھیک ، اس کا حملہ کرنا بھی ٹھیک ، اس کا حساب مانگنا بھی ٹھیک اور اس کا حکومت گرانا بھی ٹھیک۔


عدلیہ کو دیکھ لیں ۔ کسی کا کوئی فرد قتل ہو جاۓ ، کئ کئ نسلوں تک انصاف نہیں ملتا ، جج بک جاتے ہیں اور وہ غریب مائی جس کا شوھر یا بیٹا قتل ہوا ہوتا ہے سالوں عدالت کے دھکے کھا کھا کر اسی عدالت کی کسی راہداری میں جان دے دیتی ہے ۔ تو اس ملک میں عدالت کے تقدس کا خیال قطعی ایک خام خیال ہے ۔ سپریم کورٹ کے بورڈ پر شلوار اور قمیض نظر آئی تو فوری نوٹس لیا مگر ماڈل ٹاؤن میں 14 لاشے گرتے ہیں تو شاید پتہ ہی نہیں چلا ۔ نہ کوئی نوٹس ، نہ کوئی ایکشن۔


شاہراہ دستور پر عوام کی وجہ سے بندش ہے تو انہیں مار مار کر خالی کروائی جاۓ اور اگر کنٹینر لگا کر پورا شہر بند کر دیا گیا ہے تو کوئی بات نہیں ۔ آخر کب تک یہ دھرے قانون چلتے رہیں گے؟


اگر MPA یا MNA عوام کا مال کھا گئے تو کوئی بات نہیں اوور اگر عوام نے ان کا محاسبہ کرنے کا سوچا بھی تو پارلیمنٹ کی بے حرمتی ۔۔۔۔۔۔


MPA/MNA امیر سے امیر تر ہو رہا ہے تو ٹھیک اوور اگر کسی غریب نے اس کا گریبان بھی پکڑنے کی کوشش کی تو پارلیمنٹ کی بے حرمتی ۔ اگر لوگوں نے پارلیمنٹ کی طرف منہ کر کے رفع حاجت کرنے کی کوشش بھی کی تو پارلیمنٹ کی بے حرمتی ۔۔۔۔۔۔


اے حکمرانو ! اپنی آنکھیں کھولو ، عوام کی سطح پر آکر دیکھو ، عوام کا سوچو اور سوچو کہ اگر آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا آپ کا ردعمل اس سے بھی زیادہ شدید نہ ہوتا ؟ یقیناً ! 


جب لوگوں  کو ان عمارتوں سے غم ، ناانصافی مہنگائی اور دیگر مصائب ملیں گے تو حملے تو ہوں گے ، عوام جنگلے بھی توڑیں گے ، اندر داخل بھی ہوں گے اور آپ کے گریبان بھی  پکڑیں گے ۔ تو گویا اس سے پہلے پہلے آپ اپنی اصلا ح کرلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر آپ کو پناہ کی جگہ ہی نہ ملے ۔


 

اور آخر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث کا ذکر کروں گا : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا طواف فرما رہے تھے۔اور فرما رہے تھے تو کیا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کس قدر اچھی ہےتو کتنا صاحب عظمت ہےاور تیری حرمت کتنی عظیم ہےقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے،مؤمن کی حرمت اس کے مال و جان کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے عظیم تر ہےاور مومن کے ساتھ بد گمانی بھی اسی طرح حرام ہے ہمیں حکم ہے کہ مومن کے ساتھ اچھا گمان کریں(حدیث شریف 3932،صفہ 271،272،جلد3،سنن ابن ماجہ شریف)  


سو یە مقدس املاک کا بہانہ  چھوڑیں ۔ ان کی حفاظت کی خاطر ایک لاشہ گرانا بھی جائز نہیں اور آپ یہ ناجائز کام کئی بار کرچکے ہیں ۔ کسی پارلیمنٹ کی حرمت ایک مسلمان سے بھی زیادە نہیں ۔ جب میرے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرما دیا تو نہ چاہتے ہوۓ بھی ماننا تو پڑے گا ۔ 


ان تمام باتوں پر غور کریں اور ان سب کو ذہن میں رکھتے ہوۓ قدم اٹھائیں اگر آپ واقعی ملک بچانے کے خواہاں ہیں ۔  


الله ھمارا اور اس ملک کا حامی و ناصر ہو ۔


P.S: بلاگ کے بارے میں اپنی راۓ ضرور دیجیۓ۔عمیر افضل مرزا  

E-mail:umair-mirza@hotmail.com


No comments:

Post a Comment