Thursday, December 25, 2014

Regret Nothing

REGRET NOTHING

Human life is full of such things which make him not to feel good. Anytime you sit in a calm, quiet, least lightened room and think of your past. Start from your age when you became just conscious of your surroundings leading to the age you're enjoying now.

Recall all your memories. All fights, all happinesses, all sorrows , all regrets and all those things also you don't want to happen again. You'll find that there'll be a lot of things you don't want to recall but in spite of all the resistance you offer in recalling them , they are recalled again and again.

A lot of things belong to that part of life you regret upon. Regret of doing something wrong, regret of losing something or someone, regret to lose your dear ones and it can be a regret of getting a supplementary in your exams.

All these feelings, emotions and mental conditions are said to be normal as a normal human has to pass through all these filters of his life to make him refined further.

But there comes a problem. Some people are so much indulged in the feelings of regret and sorrow that they leave their effort for further life. Even they leave their wish to live further in this beautiful world. That's a dangerous thing and should be avoided in any case.

What we think of or dream of never always come true. There is a Super Power WHO knows well what's beneficial for us what's not. He has the knowledge of what is revealed and what is hidden.

If we make our firm belief on this thing that Allah knows better and also knows what's beneficial for us , then most of our problems are solved.

This belief will be a "Driving Force" for those have lost their 'acceleration'.For those who have lost their interest in this world and even lost their wish to live.

So, never ever get driven by your emotions. Drive them yourself. Make your belief firm that the way you're living in this world is the most beneficial way Allah has decided for you.

Keep Away from sorrows, Step Ahead ,

 "THE WHOLE WORLD IS YOURS".

Umair A. Mirza

Monday, November 3, 2014

کیا ہم مسلمان ہیں؟

کیا ہم مسلمان ہیں؟

ہم صبح و شام راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ، اسلام ھمارا مذھب ہے ، نبئ اکرم ﷺ کے امتی   ہیں اور اللّہ وحدہ پر ایمان لانے والے ہیں لیکن کیا کبھی ھم نے اس بات پر غور کیا کہ کیا ہم واقعتاً مسلمان ہیں ۔


چند منٹ کے لیے اکیلے میں آنکھیں بند کر کے سوچنا شروع کریں ، زیادہ دور نہ جائیں ، صرف ایک دن کی کارگزاری کا احتساب کرنا شروع کریں۔ صبح سے شام تک اپنی تمام حرکات و سکنات کا جائزہ لیں ۔ اپنے ہاتھوں سے سرزد ہونے والے افعال ، اپنی زبان سے نکلنے والے الفاظ ، اپنی آنکھوں سے دیکھے جانے والے مناظر اور کانوں کے پردوں سے ٹکرانے والی آوازوں کا محاسبہ کریں ۔ اپنے ذہن کے پراگندہ خیالات کو بھی اس تحریک میں شامل کر لیں تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔ اور اگر ان سب کا جائزہ لینے کے  دی جائے تو وہ 5 سے 10 فیصد سے تجاوز ہرگز ہرگز نہیں کرے گی۔figure بعد کوئی 


   یہ ہمارا حال ہے کہ نبیﷺ کے عشق سے سرشار ، نعرہ لا الہ پر فدا ہونے والے ، اسلام کا ہر محاذ پر دفاع کرنے والوں کی خود زندگی میں اسلام کا حصہ چند فیصد سے زیادہ نہیں ۔


تو پھر ہم کہاں کے مسلمان ہیں ۔ ہمارے کان موسیقی ، غلیظ گالیاں اور اول فول سننے کے عادی ہوچکے ہیں اور ذکر الہی کی آواز ان پر گراں گزرتی ہے۔ ہماری آنکھیں ایسے مناظر دیکھتی ہیں جو کسی مسلمان کو دیکھنا گوارا نہیں مگر ہم ہٹ دھرمی سے وہ سب کچھ دیکھتے چلے جاتے ہیں مگر ان آنکھوں پر گراں ہیں تو قرآن کے الفاظ ۔ دنیا کے ہر ایک مسئلے پر چاہے ہمارا اس سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو ہماری زبان کی تمام گرہیں کھل جائیں مگر جب تذکرہ اسلام کا ہو ، دین کا ہو ، میرے پروردگار اور اس کے رسولﷺ کا ہو توگویا چپ لگ جائے۔ یہ ہاتھ اور یہ تمام جسم اس پروردگار کے احکامات بجا لانے سے عاری ہیں جس نے اس ناچیز کو اپنا نائب بنا کر اس زمین پر بھیجا۔


مگر اس سب کے بااوجود ہم مسلمان ہیں اور وہ بھی سب سے بڑے ۔ نہ ہم سے بڑا کوئی مسلمان پیدا ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ ہم جیسا متقی اور ایمان دار کسی ماں نے جنا نہیں اور کسی زمین نے سہا نہیں۔ تو کیوں نہ ہم اپنا محاسبہ کریں۔ گریبان کھولنا ہے تو اپنا کھولیں۔ دوسروں کے گریبانوں کو چھوڑ دیں۔ اگر اپنا گریبان ہی کھول لیں تو شاید کسی اور کے گریبان کو کھولنے کا حوصلہ ہی نہ رہے مگر ایک مسئلہ ہے کہ ’’ میرا گریبان تو پاک ہے‘‘۔

عمیر اے مرزاؔ

Saturday, September 27, 2014

مقدس عمارتیں

:مقدس  عمارتیں:


ملک کے سیاسی حالات اس وقت نقطۂ ابال کو چھو بیٹھے ھیں۔ اپوزیشن اور حکومت اور کئی فا ئدہ اٹھانے والے ایک طرف جب کہ دھرنہ اینڈ کمپنی دوسری طرف ۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف عرصہ 44 دن سے برسر پیکار ھیں۔ دھرنے والوں کے کچھ مطالبے ھیں جنہیں حکومت ماننے کو تیار نھیں اور کچھ حکومت کی باتیں ھیں جنہیں دھرنے والے مانتے نظر نہیں آتے۔ گویا ڈيڈ لاک برقرار ھے اور مذاکرات بے نتیجہ ثابت ھوچکے ھیں۔


ان دھرنوں کے دوران ایک بڑی ہی قابل ذکر چیز نظر آئی کہ کہ جب مظاھرین اسلام آباد کی طرف  روانہ ھوئے تو سب سے پہلے ريڈ زون کو "مقدس زون"  قرار ديا گیا اور اس کا استحصال کرنے والوں کو قرار واقعی سزا کا حقدار ٹھہرایا گیا ۔  مگر خیر حکومت مظاھرین کے آگے بے بس ھوتی نظر آئی ، مظاھرین اور ان کی لیڈر شپ کو بھی اس کا احساس ہوا تو انھوں نے ريڈ زون کی اس "مقدس گائے "کو ذبح کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ عوامی طاقت کے سامنے   حکومت نے بھی مزاحمت نہ کرنے کا اچھا فیصلہ کیا  ۔ سو نہ مزاحمت ہوئی اور اس مقدس گائے کو با آسانی ذبح کرنے دیا گیا ۔


مگر بات یہاں تک ہی نہ ٹھہری۔ مظاھرین اس کے بعد پارلیمنٹ کے بیرونی جنگلے پر حملہ آور ہوئے اور اسے بلآخر توڑ  دیا گیا ۔ اس کے علاوہ تصاویر میں ایک اور چیز کو بھی پذیرائی ملی اور وہ تھی  " سپریم کورٹ آف پاکستان " کے بورڈ پر سوکھنے کے لئے لٹکائی گئی شلوار اور قمیض ۔ اس کے علاوہ مظاھرین نے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے جانے کی کوششیں بھی کیں۔


ان سب واقعات کے دوران حکومت کی جانب سے ایک رٹ بار بار لگائی گئی  ۔ اخبار کیا ، ریڈیو کیا ، ٹی وی کیا گویا ہر جگہ اس رٹ کو خوب چھاپا ، سنایا اور دکھایا گیا کہ مظاھرین پارلیمنٹ اور دیگر " مقدس عمارتوں " کا احترام کریں اور ان کا استحصال نہ کریں ۔ یہ مقدس املاک ہیں جن کا احترام فرض ہے اور چاہے سینکڑوں لوگ مارنے پڑ جائیں ھم اس مقدس گائے کو ذبح نہیں ہونے دیں گے۔


خیر لوگ پارلیمنٹ کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں ، ان پر Tear Gas کی شیلنگ کی جاتی ہے ، ربڑ کی اور اصل گولیوں سے فائرنگ کی جاتی ہے ۔ ہزاروں زايد المیعاد شیل فائر کیے جاتے ہیں ، لوگ زخمی اور ہلاک ہوتے ہیں ۔ بچے ماؤں سے جدا ہوجاتے ہیں اور پھر اگلے ہی دن ٹی وی اخباروں پر کرسی کے رسیا تمام سیاست دان اور کچھ مفاد پرست ملّا بھی پارلیمنٹ پر حملے کو حرام قرار دیتے  ہیں ، مظاھرین کو بلوائیوں کا خطاب ملتا ہے اور اس " مقدس گائے "  پر حملہ آور ہونے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا کہا جاتا ہے ۔


مگر ان عقل کے اندھے  عقل کے اندھے ،  کرسی کے رسیا ، لالچی ، خود غرض ، ایمان فروش ، ضمیر فروش اور بکے ہوۓ سیاست دانوں کو کون جا کر سمجھاۓ کہ جناب جب پیٹ خالی ہوں ، کھانا ملنے کا پتہ نہیں کہ ملے یا نہ ملے ، جب ماوٴں کی آنکھوں کے سامنے ان کے جگر گوشوں کے قتل سرعام آزاد گھومتے نظر آئیں ، جب بیٹیوں کے باپ ان سے چھین لیے جائیں ، جس ملک کے بچے بے گناہ یتیم کر دیۓ جائیں ، جب بہنوں کے سہاگ بلا وجہ اجاڑ دیۓ جائیں  ، جب تمام ملک کے چیدہ چیدە اور اعلی   ترین چور اسمبلیوں میں پناہ لیے بیٹھے ہوں اور اشتہاری ان کے دست راست ہوں تب ان مقدس عمارتوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ۔ تب یہ پارلیمنٹ ملک کے ماتھے پر سیاہ دھبہ معلوم ہوتا ہے  ، تب یہ وزیر اعظم ہاوٴس ملک کے خادم کا گھر کم اور بادشاہ کا گھر زیادہ معلوم ہوتا ہے ، تب یہ عمارتیں وہ محل خیال ہوتی ہیں جن کو بنانے میں سیمنٹ اور ریت نہیں بکہ عوام کا گوشت اور خون استعمال ہوا ہے ۔


 تو پھر حملے کیوں نہ ہوں ، جب کسی باپ کو اس کے بیٹے کا قاتل مقدس ایوان میں سفید امپورٹڈ سوٹ پہنے بیٹھا نظر آۓ گا اور وہ کروڑوں کی گاڑیوں سے شاہانہ انداز سے اس کا منہ چڑا رہا ہو ، جب یتیم بچوں کو ان کے باپ کا قاتل  BMW ، MERCEDES اور RANGE ROVER میں بیٹھا نظر آۓ  ، جب بہنوں کو ان کے سہاگ اجاڑنے والے ہیلی کاپٹروں میں پھرتے نظر آئیں ، وہ جسے روزانہ 60 روپے نہ ملیں اور اپنے 60000 فی منٹ کے حساب سے بلاوجہ پارلیمنٹ پر خرچ ہوتے نظر آئیں وہ تو حملہ آور بھی ہوگا ، حساب بھی مانگے گا ، بآسانی ورغلایا بھی جاۓ گا اور اس " مقدس گاۓ " کا استحصال بھی کرے گا۔اس کا ورغلایا جانا بھی ٹھیک ، اس کا حملہ کرنا بھی ٹھیک ، اس کا حساب مانگنا بھی ٹھیک اور اس کا حکومت گرانا بھی ٹھیک۔


عدلیہ کو دیکھ لیں ۔ کسی کا کوئی فرد قتل ہو جاۓ ، کئ کئ نسلوں تک انصاف نہیں ملتا ، جج بک جاتے ہیں اور وہ غریب مائی جس کا شوھر یا بیٹا قتل ہوا ہوتا ہے سالوں عدالت کے دھکے کھا کھا کر اسی عدالت کی کسی راہداری میں جان دے دیتی ہے ۔ تو اس ملک میں عدالت کے تقدس کا خیال قطعی ایک خام خیال ہے ۔ سپریم کورٹ کے بورڈ پر شلوار اور قمیض نظر آئی تو فوری نوٹس لیا مگر ماڈل ٹاؤن میں 14 لاشے گرتے ہیں تو شاید پتہ ہی نہیں چلا ۔ نہ کوئی نوٹس ، نہ کوئی ایکشن۔


شاہراہ دستور پر عوام کی وجہ سے بندش ہے تو انہیں مار مار کر خالی کروائی جاۓ اور اگر کنٹینر لگا کر پورا شہر بند کر دیا گیا ہے تو کوئی بات نہیں ۔ آخر کب تک یہ دھرے قانون چلتے رہیں گے؟


اگر MPA یا MNA عوام کا مال کھا گئے تو کوئی بات نہیں اوور اگر عوام نے ان کا محاسبہ کرنے کا سوچا بھی تو پارلیمنٹ کی بے حرمتی ۔۔۔۔۔۔


MPA/MNA امیر سے امیر تر ہو رہا ہے تو ٹھیک اوور اگر کسی غریب نے اس کا گریبان بھی پکڑنے کی کوشش کی تو پارلیمنٹ کی بے حرمتی ۔ اگر لوگوں نے پارلیمنٹ کی طرف منہ کر کے رفع حاجت کرنے کی کوشش بھی کی تو پارلیمنٹ کی بے حرمتی ۔۔۔۔۔۔


اے حکمرانو ! اپنی آنکھیں کھولو ، عوام کی سطح پر آکر دیکھو ، عوام کا سوچو اور سوچو کہ اگر آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا آپ کا ردعمل اس سے بھی زیادہ شدید نہ ہوتا ؟ یقیناً ! 


جب لوگوں  کو ان عمارتوں سے غم ، ناانصافی مہنگائی اور دیگر مصائب ملیں گے تو حملے تو ہوں گے ، عوام جنگلے بھی توڑیں گے ، اندر داخل بھی ہوں گے اور آپ کے گریبان بھی  پکڑیں گے ۔ تو گویا اس سے پہلے پہلے آپ اپنی اصلا ح کرلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر آپ کو پناہ کی جگہ ہی نہ ملے ۔


 

اور آخر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث کا ذکر کروں گا : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا طواف فرما رہے تھے۔اور فرما رہے تھے تو کیا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کس قدر اچھی ہےتو کتنا صاحب عظمت ہےاور تیری حرمت کتنی عظیم ہےقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے،مؤمن کی حرمت اس کے مال و جان کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے عظیم تر ہےاور مومن کے ساتھ بد گمانی بھی اسی طرح حرام ہے ہمیں حکم ہے کہ مومن کے ساتھ اچھا گمان کریں(حدیث شریف 3932،صفہ 271،272،جلد3،سنن ابن ماجہ شریف)  


سو یە مقدس املاک کا بہانہ  چھوڑیں ۔ ان کی حفاظت کی خاطر ایک لاشہ گرانا بھی جائز نہیں اور آپ یہ ناجائز کام کئی بار کرچکے ہیں ۔ کسی پارلیمنٹ کی حرمت ایک مسلمان سے بھی زیادە نہیں ۔ جب میرے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرما دیا تو نہ چاہتے ہوۓ بھی ماننا تو پڑے گا ۔ 


ان تمام باتوں پر غور کریں اور ان سب کو ذہن میں رکھتے ہوۓ قدم اٹھائیں اگر آپ واقعی ملک بچانے کے خواہاں ہیں ۔  


الله ھمارا اور اس ملک کا حامی و ناصر ہو ۔


P.S: بلاگ کے بارے میں اپنی راۓ ضرور دیجیۓ۔عمیر افضل مرزا  

E-mail:umair-mirza@hotmail.com