Monday, November 3, 2014

کیا ہم مسلمان ہیں؟

کیا ہم مسلمان ہیں؟

ہم صبح و شام راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ، اسلام ھمارا مذھب ہے ، نبئ اکرم ﷺ کے امتی   ہیں اور اللّہ وحدہ پر ایمان لانے والے ہیں لیکن کیا کبھی ھم نے اس بات پر غور کیا کہ کیا ہم واقعتاً مسلمان ہیں ۔


چند منٹ کے لیے اکیلے میں آنکھیں بند کر کے سوچنا شروع کریں ، زیادہ دور نہ جائیں ، صرف ایک دن کی کارگزاری کا احتساب کرنا شروع کریں۔ صبح سے شام تک اپنی تمام حرکات و سکنات کا جائزہ لیں ۔ اپنے ہاتھوں سے سرزد ہونے والے افعال ، اپنی زبان سے نکلنے والے الفاظ ، اپنی آنکھوں سے دیکھے جانے والے مناظر اور کانوں کے پردوں سے ٹکرانے والی آوازوں کا محاسبہ کریں ۔ اپنے ذہن کے پراگندہ خیالات کو بھی اس تحریک میں شامل کر لیں تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔ اور اگر ان سب کا جائزہ لینے کے  دی جائے تو وہ 5 سے 10 فیصد سے تجاوز ہرگز ہرگز نہیں کرے گی۔figure بعد کوئی 


   یہ ہمارا حال ہے کہ نبیﷺ کے عشق سے سرشار ، نعرہ لا الہ پر فدا ہونے والے ، اسلام کا ہر محاذ پر دفاع کرنے والوں کی خود زندگی میں اسلام کا حصہ چند فیصد سے زیادہ نہیں ۔


تو پھر ہم کہاں کے مسلمان ہیں ۔ ہمارے کان موسیقی ، غلیظ گالیاں اور اول فول سننے کے عادی ہوچکے ہیں اور ذکر الہی کی آواز ان پر گراں گزرتی ہے۔ ہماری آنکھیں ایسے مناظر دیکھتی ہیں جو کسی مسلمان کو دیکھنا گوارا نہیں مگر ہم ہٹ دھرمی سے وہ سب کچھ دیکھتے چلے جاتے ہیں مگر ان آنکھوں پر گراں ہیں تو قرآن کے الفاظ ۔ دنیا کے ہر ایک مسئلے پر چاہے ہمارا اس سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو ہماری زبان کی تمام گرہیں کھل جائیں مگر جب تذکرہ اسلام کا ہو ، دین کا ہو ، میرے پروردگار اور اس کے رسولﷺ کا ہو توگویا چپ لگ جائے۔ یہ ہاتھ اور یہ تمام جسم اس پروردگار کے احکامات بجا لانے سے عاری ہیں جس نے اس ناچیز کو اپنا نائب بنا کر اس زمین پر بھیجا۔


مگر اس سب کے بااوجود ہم مسلمان ہیں اور وہ بھی سب سے بڑے ۔ نہ ہم سے بڑا کوئی مسلمان پیدا ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ ہم جیسا متقی اور ایمان دار کسی ماں نے جنا نہیں اور کسی زمین نے سہا نہیں۔ تو کیوں نہ ہم اپنا محاسبہ کریں۔ گریبان کھولنا ہے تو اپنا کھولیں۔ دوسروں کے گریبانوں کو چھوڑ دیں۔ اگر اپنا گریبان ہی کھول لیں تو شاید کسی اور کے گریبان کو کھولنے کا حوصلہ ہی نہ رہے مگر ایک مسئلہ ہے کہ ’’ میرا گریبان تو پاک ہے‘‘۔

عمیر اے مرزاؔ